Collection Of 15+ Best Sad Ghazal
Best ghazal collection
1:غزل نمبر
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل ہے اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والوں کوچہ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
میدان وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
غزل نمبر:2
میں نے اسے سلام لکھ بھیجا ہال دل تمام لکھ بھیجا
میں نے پوچھا تمہاری آنکھیں کیسی ہیں
اس نے لفظ جام لکھ بھیجا
میں نے پوچھا تمھارے بال کیسے ہیں
اس نے قدرت کا انعام لکھ بھیجا
میں نے پوچھا ملاقات کب ہوگی اس سے
اس میں قیامت کی شام لکھ بھیجا
میں نے پوچھا اتنا ستاتے کیوں ہو تم
اس نے جوانی کا انتقام لکھ بھیجا
میں نے پوچھا تمہیں نفرت کس چیز سے ہے
اس ظالم نے میرا نام لکھ بھیجا
غزل نمبر:3
یاد آؤں تو بس اتنی سی عنایت کرنا
اپنے بدلے ہوئے لہجے کی وضاحت کرنا
تم تو چاہت کا شاہکار ہوا کرتے تھے
کس سے سیکھا ہے الفت میں ملاوٹ کرنا
ہم سزاؤں کے بنے ہیں حقدار کب سے
تم ہی کہہ دو جرم ہے کیا محبت کرنا
تیری فرقت میں یہ آنکھیں ابھی تک نم ہے
کبھی آنا میری آنکھوں کی زیارت کرنا
غزل نمبر:4
لوگ مجھ سے مل کر بچھڑ جاتے ہیں
اس لئے میں لوگوں سے دور رہتا ہوں
مت سمجھو کے آتے نہیں آداب ملاقات مجھے
خلوص کا بندہ ہوں عادت سے مجبور رہتا ہوں
جن سے بڑھا میرا رابطہ غم ہی ملا
اب رابطہ نہیں بڑھاتا بہت مصروف رہتا ہوں
لوگ مجھے کہتے ہیں بے مروت اور خود غرض
کتنے اچھے ناموں سے مشہور رہتا ہوں
ہر وقت کھویا رہتا ہوں خود کی تلاش میں
بہت تھک گیا ہوں اپنوں سے دور رہتا ہوں
غزل نمبر:5
ہم جو سلسلے وفا کے رکھتے ہیں
تو حوصلے بھی انتہا کے رکھتے ہیں
ہم کبھی بد دعا نہیں دیتے
ہم سلیقے دعا کے رکھتے ہیں
ان کے دامن بھی جلتے دیکھے ہیں
وہ جو دامن بچا کے رکھتے ہیں
ہم نہیں ہے شکست کے قائل
ہم سفینے جلا کے رکھتے ہیں
جس کو جانا ہے وہ چلا جائے
ہم دیے سب بجھا رکھتے ہیں
ہم بھی کتنے عجیب ہیں محسن
درد کو دل میں چھپا کے رکھتے ہیں
غزل نمبر:6
محبت تو محبت ہے
یہ کرنی تو نہیں پڑتی
یہ اکثر ہو ہی جاتی ہے
مگر ہوتی تو اندھی ہے
کہاں کچھ دیکھ پاتی ہے
کبھی بے درد لوگوں سے
کبھی بے قدر لوگوں سے
کبھی بے حس لوگوں سے
کبھی بے قول لوگوں سے
یہ اکثر ہو بھی جاتی
محبت بے مول لوگوں سے
غزل نمبر:7
اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
آ تجھے میں گنگنانا چاہتا ہوں
کوئی آنسو تیرے دامن پر گرا کر
بوند کو موتی بنانا چاہتا ہوں
تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو
اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں
چھا رہا ہے ساری بستی میں اندھیرا
روشنی کو گھر جلانا چاہتا ہوںْ
آخری ہچکی بھی تیری زانو پہ آئے
موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں
غزل نمبر:8
کبھی یوں بھی آ میرے روبرو
تجھے پاس پا کے میں رو پڑوں
مجھے منزل عشق پہ ہو یقین
تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں
کبھی سجالوں تجھ کو آنکھوں میں
کبھی تجھے تسبیحوں میں پڑھا کرو
کبھی چوم لوں تیرے ہاتھوں کو
کبھی تیرے دل میں بسا کروں
غزل نمبر:9
وہ سنتا تو میں کہتا مجھے کچھ اور کہنا تھا
وہ پل بھر کو جو رک جاتا مجھے کچھ اور کہنا تھا
کمائی زندگی بھر کی اسی کے نام تو کر دی
مجھے کچھ اور کرنا تھا مجھے کچھ اور کہنا تھا
کہاں اس نے سنی میری سنی بھی ان سنی کر دی
اسے معلوم تھا اتنا مجھے کچھ اور کہنا تھا
میرے دل میں جو ڈر آیا کوئی مجھ میں بھی ڈرایا
وہی اک رابطہ ٹوٹا مجھے کچھ اور کہنا تھا
رواں تھا پیار نس نس میں بہت قربت تھی آپس میں
اسے کچھ اور سننا تھا مجھے کچھ اور کہنا تھا
غلط فہمی نے باتوں کو بڑھا ڈالا یونہی ورنہ
کہا کچھ تھا وہ کچھ سمجھا مجھے کچھ اور کہنا تھا
غزل نمبر:10
میں چاہتوں کا حساب لکھ دوں
آ تجھ پہ کوئی کتاب لکھ دوں
کبھی کسی سے کیا نہ ہو جس نے
میں وہ پیار بے مثال لکھ دو
میری نظروں میں جو بس گیا ہے
وہ دلکشی وہ جمال لکھ دو ں
بہت دنوں سے سوچتا ہوں
ہر شام تیرے نام لکھ دو
اب گوارا ہو تجھے تو
یہ زندگی تیرے نام لکھ دوں
غزل نمبر:11
اکیلے چھوڑ جاتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے
ہمارا دل جلاتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے
کہا بھی تھا یاری ہے یاری ہی رکھو اس کو
تماشہ جو بناتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے
اٹھاتے ہو سر محفل فلک تک تم ہمیں لیکن
اٹھا کر جو گراتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے
کوئی جو پوچھے تم سے کہ رشتہ کیا ہے اب ہم سے
تو نظروں کو جھکاتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتےٌ
بکھر جائیں اندھیروں میں سہارا تمہی دیتے ہو
مگر تم چھوڑ جاتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے
غزل نمبر:12
میں اپنی دوستی کو شہر میں رسوا نہیں کرتا
محبت میں بھی کرتا ہوں مگر چرچا نہیں کرتا
جو مجھ سے ملنے آجائے میں اس کا دل سے خادم ہوں
جو کچھ کر جانا چاھے میں اسے روکا نہیں کرتا
جسے میں چھوڑ دیتا ہوں اسے پھر بھول جاتا ہوں
پھر اس ہستی کی جانب میں کبھی دیکھا نہیں کرتا
تیرا اصرار سر آنکھوں پر کہ تم کو بھول جاؤں میں
میں کوشش کر کے دیکھوں گا مگر وعدہ نہیں کرتا
غزل نمبر:13
ساتھ روتی تھی میرے ساتھ ہنسا کرتی تھی
وہ لڑکی جو میرے دل میں بسا کرتی تھی
میری چاہت کی طلبگار تھی اس درجے
وہ مصلے پر نمازوں میں دعا کرتی تھی
ایک لمحے کا بچھڑنا بھی گوارا نہ تھا اس کو
روتے روتے وہ مجھے یہ کہا کرتی تھی
روگ جو دل کا لگا بیٹھی تھی انجانے میں
میری آغوش میں مرنے کی دعا کرتی تھی
بات قسمت کی تھی جو دور ہو گئے ہمٌ
ورنہ وہ مجھے اپنی تقدیر کہا کرتی تھی
غزل نمبر:14
سنا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے
اسے کہنا کہ سوتے ہم بھی نہیں
سنا ہے وہ چھپ چھپ کے روتا ہے
اسے کہنا ہنستے ہم بھی نہیں
سنا ہے وہ مجھے یاد کرتا ہے
اسے کہنا بھولے ہم بھی نہیں
سنا ہے وفا کا دعوی کرتا ہے
اسے کہنا بے وفا ہم بھی نہیں
غزل نمبر:15
ابھی سورج نہیں ڈوبا ابھی ذرا ہونے دو
میں خود ہی لوٹ جاؤں گا مجھے ناکام ہونے دو
مجھے بد نام کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہو کیوں
میں خود ہو جاؤں گا بد نام پہلے نام ہونے دو
ابھی مجھ کو نہیں کرنا ہے اعتراف شکست تم سے
میں سب تسلیم کر لوں گا یہ چرچا عام ہونے دو
میری ہستی نہیں انمول کر بھی دیکھ نہیں سکتا
وفائیں بیچ لینا بس ذرا نیلام ہونے دو
نئے آغاز میں بھی کیوں حوصلہ چھوڑ بیٹھے ہو
تم سب کچھ جیت جاؤ گے ذرا انجام ہونے دو
غزل نمبر:16
اس نے پوچھا عشق کیا ہے
میں نے کہا تیری یاد
اس نے پوچھا یاد کیا ہے
میں نے کہا تیرا انتظار
اس نے پوچھا انتظار کیا ہے
میں نے کہا میری زندگی
اس نے پوچھا زندگی کیا ہے
میں نے کہا تیرا عشق
3 Comments
Superb
ReplyDeletenice
ReplyDeletegood
ReplyDelete