10+New best romantic Ghazal | Sad Ghazal | Urdu Ghazal | Ghazal In Urdu

10+New Ghazal || Sad Ghazal || Urdu Ghazal || Ghazal In Urdu ||


sad-ghazal,urdu-ghazal,ghazal-in-urdu,


1:غزل نمبر

 کوئی امید بر نہیں آتی 
 کوئی صورت نظر نہیں آتی 

 موت تو ایک دن معین ہے 
 نیند کیوں رات بھر نہیں آتی 

 آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی 
 اب کسی بات پر نہیں آتی 

 ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں 
 ورنہ کیا بات کرنا نہیں آتی 

 کیونکہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں 
 میری آواز گر نہیں آتی 

 داغ دل گر نظر نہیں آتا 
 جو بھی چارہ گر نہیں آتی 

 ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی 
 کچھ ہماری خبر نہیں آتی 

 مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی 
 موت آتی ہے پر نہیں آتی 

 کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب 
 شرم تم کو مگر نہیں آتی




غزل نمبر:2




 وہ کہتا تھا 
 بتاؤ بے سبب کیوں روٹھ جاتی ہو 
 میں کہتی تھی 
 ذرا مجھ کو مناؤ اچھا لگتا ہے 
 وہ کہتا تھا 
 میرا دل تم سے آخر کیوں نہیں بھرتا 
 میں کہتی تھی 
 محبت کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی 
 وہ کہتا تھا 
 بتاؤں میں تمہیں کیوں بھاگیا اتنا 
 میں کہتی تھی
 میری جان حادثے تو ہو ہی جاتے ہیں 
 وہ کہتا تھا 
اچانک میں تمہیں یوں ہی رولا دو تو 
 میں کہتی تھی
 مجھے ڈر ہے کہ تو بھی بھیگ جائے گا 
 وہ کہتا تھا 
بتاؤ بارشوں کی کیا حقیقت ہے 
 میں کہتی تھی
 کہ یہ بادلوں کی آنکھ روتی ہے 
 وہ کہتا تھا 
تمہارے خواب سارے کیوں ادھورے ہیں 
 میں  کہتی تھی 
  میری جان تم انہیں تکمیل دے دو نا 



غزل نمبر:3




 کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا 
 بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا 

 ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں انکو 
 کیا ہوا یہ آج کس بات پہ رونا آیا 

 کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لئے جیتے ہیں 
 بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا 

 کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست 
 سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا


غزل نمبر:4




زندگی خاک نہ تھی خاک اڑاتے گزری 
 تجھ سے کیا کہتے تیرے پاس جو آتے گزری 

 دن جو گزرا تو کسی یاد کی رو میں گزرا 
 شام آئی تو کوئی خواب دکھاتے گزری 

 اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمر رواں 
 وقت ایساتھا کہ بس ناز اُٹھاتے گزری 

 زندگی نام اُدھر ہے کسی سرشاری کا 
 اور ادھر دور سے اک آس لگاتے گزری 

 بار ہا چونک سی جاتی ہے مسافت دل کی 
 کس کی آواز تھی یہ کس کو بلاتے گزری


غزل نمبر:5



 وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں 
 جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں 

 وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں 
 محبت کے ہوش اب ٹھکانے لگے ہیں 

 سنا ہے وہ اب ہمیں بھلانے لگے ہیں 
 تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں 

 ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی 
 وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں 

 یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو 
 یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں 

 ہوائی چلے اور نہ موج ہی اٹھے 
 اب ایسے بھی طوفان آنے لگے ہیں 

 قیامت یقیناً قریب آ گئی ہے 
 خمار اب تو مسجد میں جانے لگے ہیں 




غزل نمبر:6




 یہ ہلکی سی بارش کا برسنا کا قاتل تھا 
 تیرے ہونٹوں پہ  بوندو  کا  ترسنا قاتل تھا  

 اک طرف بھیگے ہوئے تم ایک طرف گرا ہوا جھونپڑا میرا 
 وقت کا اس مفلس کو پرکھنا قاتل تھا 

 زلفوں کی ضد رخسار پر رہنا اور تم آدی سنوارنے کے 
 وہ تیرے ہاتھوں کا بالوں سے الجھانا  قاتل تھا 

 وہ دھیرے سے ہلکی سی ہوا کے ڈر سے 
 اس نزاکت سے تیرا سمٹنا قاتل تھا 

 پہلے بے اختیار مسکرا نا پھر ہمیں دیکھ کے چپ ہو جانا 
 عباس آپ کے ہونٹوں کا وہ  سنبھلنا   قاتل  تھا 

 یہ ہلکی سی بارش کا برسنا کا قاتل تھا 
 تیرے ہونٹوں پہ  بوندو  کا  ترسنا  قاتل تھا





غزل نمبر:7




 باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کر کے 
 خود بھی رویا وہ بہت ہم سے کنارہ کر کے 

 سوچتا رہتا ہوں تنہائی میں انجام خلوص 
 پھر اسی جرم محبت کو دوبارہ کر کے 

 جگمگاتی ہیں تیرے شہر کی گلیاں میں نے 
 اپنے ہر اشک کو پلکوں پہ ستارہ کر کے 

 دیکھ لیتے ہیں چلو حوصلہ اپنے دل کا 
 اور کچھ روز تیرے ساتھ گزارا کر کے 

 ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں 
دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارا کر ک





غزل نمبر:8




 یہ کب کہتی ہوں کہ تم میرے گلے کا ہار ہو جاؤ 
 وہیں سے لوٹ جانا تم جہاں سے بے زار ہو جاؤ 

 ملاقاتوں میں وقفہ اس لئے ہونا ضروری ہے 
 کہ تم اک دن جدائی کے لئے تیار ہو جاؤ 

 بہت جلد سمجھ میں آنے لگتے ہو زمانے کو 
 بہت آسان ہو تھوڑے بہت دشوار ہو جاؤٌ

 بلا کی دھوپ سے آئی ہوں میرا حال تو دیکھو  
 بس اب تم ایسا کرو کہ سایہ دیوار ہو جاؤ 

 ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھ بھی لینا حال دل اپنا 
 مگر لکھنا تبھی جب لائق کے اظہار ہو جاؤ


غزل نمبر:9



تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا 
 زندگی دھوپ تم گھنا سایہ 

 آج پھر دل نے اک تمنا کی 
 آج پھر دل کو ہم نے سمجھایا 

 تم چلے جاؤ گے تو سوچیں گے 
 ہم نے کیا کھویا ہم نے کیا پایا 

 ہم جسے گنگنا نہیں سکتے 
 وقت نے ایسا گیت کیوں گایا



غزل نمبر:10



 کبھی رک گئے کبھی چل دیئے کبھی چلتے چلتے بھٹک 
ِگئے 
 یوں ہی عمر ساری گزار دی یونہی زندگی کے ستم رہے 

 کبھی نیند میں کبھی ہوش میں تو جہاں ملا تجھے دیکھ کر 
  نہ نظر ملی نا زباں ملی یوں ہی سر جھکا کے گزر گئے 


 کبھی زلف پر کبھی چشم پر کبھی تیرے حسیں وجود پر
 جو پسند تھے میری کتاب میں وہ شعر سارے بکھر گئے  

 مجھے یاد ہے کبھی ایک تھے مگر آج ہم ہیں جدا جدا 
 وہ جدا ہوئے تو سنور گئے ہم جدا ہوئے تو بکھر گئے 

 کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی 
دربدر 
 غم عاشقی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے


غزل نمبر:11




 چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں 
 ضرورت کے مطابق ہم سہارے بانٹ لیتے ہیں 

 محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ہے 
 منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارے بانٹ لیتے ہیں 

 اگر ملنا نہیں ممکن لہروں پر قدم رکھ کر 
 ابھی دریائے الفت کے کنارے بانٹ لیتے ہیں 

 میری جھولی میں جتنے بھی وفا کے پھول ہیں انکو 
 اکٹھے بیٹھ کر سارے کے سارے بانٹ لیتے ہیں 

 محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ہے فیض 
 اسی دولت کو ہم قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں


غزل نمبر:12



 اسے میں کیوں بتاؤں 
 میں نے اسکو کتناچاہا ہے 

 بتایا جھوٹ جاتا ہے 
 سچی بات کی خوشبوٍ

 تو خود محسوس ہوتی ہے
  میری باتیں میری سوچیں

 اسے خود جان جانے دو  
 ابھی کچھ دن مجھے 
میری محبت آزمانے د


غزل نمبر:13


مکمل دو ہی دانوں پر یہ تسبیح محبت ہے 
 جو آئے تیسرا دانہ یہ ڈوری ٹوٹ جاتی ہے 

 مقرر وقت ہوتا ہے محبت کی نمازوں کا 
 ادا جن کی نکل جائے قضا بھی چھوٹ جاتی ہے 

 محبت کی نمازوں میں امامت ایک کو سونپو 
 اسے تکنے اسے تکنے سے نیت ٹوٹ جاتی ہے 

 محبت دل کا سجدہ ہے جو ہے توحید پر قائم 
 نظر کے شرک والوں سے محبت روٹھ جاتی ہے





Post a Comment

1 Comments